April 26, 2021

NR INDIA NEWS

News for all

امت مسلمہ پرمدارس ومساجدکو زندہ رکھناوقت کا اہم تقاضا مقبول احمد شہبازپوری*

*امت مسلمہ پرمدارس ومساجدکو زندہ رکھناوقت کا اہم تقاضا مقبول احمد شہبازپوری*
تیغی اکیڈمی ٹرسٹ و آل بہار ائمہ مساجد کے چیئرمین نوجوان شاعر مقبول احمد شہبازپوری ویشالوی نےکہا ہےکہ اس وقت مدارس اسلامیہ کو مستقل بند ہونے سے بچانا اور اپنی اپنی مساجد میں امام کو بحال رکھنا امت مسلمہ کی اہم ذمہ داری ہے، بات بچوں کی نہیں بلکہ مدارس کو زندہ رکھنے کی ہے، بات امام صاحبان کی نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی ہے کیونکہ اگر یہ باقی نہ رہی تو آئندہ وقت میں امت مسلمہ کے پاس بچے تو بے شمار ہونگے مگر ان بچوں کو علم دین و قرآن پڑھانے کے لئے نہ کوئ مدرسہ ملے گا اور نہ کوئی مولوی، حافظ، کیونکہ جب مولویوں کو اتنی کم تنخواہ ہونے کے باوجود دس دس پندرہ پندرہ ماہ تک تنخواہیں نہیں ملیں گی تو وہ اپنے گھر کو کب تک صبر کا لقمہ دیتے رہیں گے، مجبوراً گھر چلانے کے لیے مدرسہ چھوڑ کر کوئ کاروبار کرنا ان کے لیئے ‌مجبوری ہوگی پھر کاروبار کر لینگے تو اسےچھوڑ نہیں سکتے، پھر کل حالات درست ہونے پر آپ کے بچوں کو کیا مدارس کی دیواریں پڑھائیں گی سوچئے ذرا، یہ سیدھی سی بات بھی امت کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے، دشمن تو مدارس اور مساجد بند اور ختم کرنے پر تلے ہوے ہیں، اور ہم اس ناگہانی وقت میں بھی مدارس میں بچوں کے ہونے نہ ہونے کا سوال کر رہیں ہیں، خدارا ڈرئیے کہ کہیں ان ہی اسلام کےدشمنوں کے ساتھ ہمارا بھی حشر نہ ہو جائے،
ایسے وقت میں ہمارا طریقۂ کار تو یہ ہونا چاہیۓ تھا کہ ببانگ دہل ہم یہ اعلان کرتے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے مدارس اور علماء وحفاظ کی حفاظت کرنی ہے، ان کی ہر پریشانی کو دور کرنا ہمارا فریضہ ہے، ہم باادب ہوکر علماء کرام اور ائمہ و حفاظ سے کہتے کہ آپ بالکل بے فکر رہئے آپ کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت ہم پوری کریں گے، آپ امت کے نونہالوں کی دینی، ملی، علمی خدمت کو اپنا میدان رکھئے، ممکن حد تک آج اور کل کے لئے خود کو بالکل فارغ رکھئے،
لیکن افسوس صد افسوس، آج امت مسلمہ کا حال تو یہ ہیکہ تقریباً 15,ماہ سے مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے اماموں کی تنخواہیں کئی کئی مہینوں سےنہیں ملیں، لیکن امت کا کوئ فرد کسی مولوی کی خبر گیری کے لئے نہیں اٹھا، میرے علم میں تو کئی گھر فاقہ پر فاقہ کرتے ہوے دنیا سے کوچ کر گئے،
امت کے خیال میں شاید مولوی انسانوں کی اُس قسم میں سے ہوتے ہیں، جن کو نہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے نہ پہننے کی نہ ان کی اولاد ہوتی ہے نہ بیوی نہ ان کے والدین اور نہ گھر والے ہوتے ہیں نہ عزیز و اقارب و رشتہ دار،
مولوی کی خودداری کو امت نے مولویت کی کمذوری سمجھا، مولوی کی قناعت کو امت نے مولویت کی مجبوری سمجھا، مولوی کی دینی خدمت کو امت نے اپنا اصولی حق سمجھا، امت کے خیال میں مولوی یا مولوی زادے کو بلاعوض ملی خدمات کے لئے پیدا کیا گیا ہے،
اس لئے انہیں اپنی ہر ضرورت میں بلاؤ، نہ آئیں تو برا بھلا کہو، لیکن مولوی کی خیریت لینے ہرگز ہرگز مت جاؤ ورنہ خدا ناراض ہوجائے گا یاد رکھنا چاہئے۔
کسی مولوی کو اپنی ذات کیلئے کبھی بھی ہمہارے چندے کی ضرورت نہیں ہمہارے دئے ہوے چندہ سے وہ ہمہارے ہی بچوں کو دین پڑھا کر ان کا مستقبل روشن کرتا ہے، اور پھر ہم مدارس کو چندہ دیتے ہی کب ہیں، ہم تو بڑی مشکل سے ہزار کونے کا منھ بناکر ، ناک پھلاکر ، مولوی سے اپنے دروازہ کا دس بار چکر لگواکر، ہزار ٹیڑھی میڑھی باتیں سناکر،ناقابل برداشت احسان لادکر دروازے پہ آئے ہوے مولوی کو بغیر عزت سے بٹھائے ہوے زکوٰۃ کے فنڈ سے کچھ رقم دیکر ٹرکا دیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ مولوی ہمارے ٹکڑوں پر پل رہیں ہیں، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ جو چیز ہمنے مدارس کو دی ہے وہ ہمارے کسی لائق نہ تھی اسے مستحقین تک پہنچانا ہم پر فرض ہے، اور اس میں سے ایک پیسہ بھی ہمارے لئے حرام ہے، پھر ہمنے مدرسے کو اپنے پاس سے کیا دیا جس کی وجہ سے ہم مولویت کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، سچ یہ ہے کہ چندہ دینے کے زمرے میں زکوٰۃ نہیں بلکہ امدادی رقوم ہوا کرتی ہیں جو مدارس میں دینا ہم پر لازم ہیں،
اور وہ بھی، ثواب کی امید پر باادب ہوکر ورنہ امدادی رقوم میں بھی ہم ثواب سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے،
ورنہ درست بات یہ ہیکہ اللہ نے مولویوں کو بھی ہماری طرح دو دو ہاتھ پیر اور دل و دماغ عطا کیا ہے، اور ان کی فکر کو ہم سے زیادہ بلندی دے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا بھی ہم سے زیادہ کما سکتے ہیں، اور ہم سے زیادہ خوش حال زندگی بھی گزار سکتے ہیں، مگر کیا ہوگا پھر امت کے نونہالوں کا، ہمارے آپ کے بچوں اور نسلوں کا یہ سب بد دین ہوکر مرتد ہو جائیں گے، اور ان تمام بچوں اور نسلوں کے کفر وشرک کا لازمی گناہ مولویت کی ناقدری کی وجہ سے ہماری آپ کی گردنوں پر ہوگا ایک امام پورے بستی والوں کے نکھرے برداشت کرتا ہے سب کی باتوں کو سن کر اللہ کے گھر کو آباد کیے رہتا ہے اور اس مصیبت کی گھڑی میں پورا گاؤں والے ملکر ایک امام کے گھر کو آباد نہیں کرسکتا یاد رکھو تم کبھی خوش نہیں رہ سکتے جب تک کے امام اور امام کے گھر والے خوشحال زندگی نہ گزاینگے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطاء فرمائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © All rights reserved. | Newsphere by AF themes.