July 17, 2021

NR INDIA NEWS

News for all

ماہ ذی الحجہ: اہمیت اور خصوصیات -* سید مشتاق، قومی صحافی، NR News India جموں کشمیر، چیئرمین جموں کشمیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی۔۔

1 min read

*ماہ ذی الحجہ: اہمیت اور خصوصیات -*
سید مشتاق، قومی صحافی، NR News India جموں کشمیر، چیئرمین جموں کشمیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی۔۔
خصوصیاتِ عشرہ ذی الحجہ:
*اللہ تعالی نے عشرہ ذی الحجہ کو مختلف عبادتوں کے ذریعہ خصوصیت بخشی ہے، ان دس دنوں میں اجتماعی عبادتیں انجام دی جاتی ہیں، امت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق اور ان کی سیسہ پلائی دیوار کا مظاہرہ ہوتا ہے، مسلکی اختلافات اور فکری انتشار کے مابین یہ دس دن امت کو یہ باور کرواتے ہیں کہ تم ایک جسم اور جان ہو، اجتہادی باریکیوں میں الجھ کر اور فروعی مسائل میں دست گریبان ہو کر اپنی حیثیت، وقعت ضائع نہ کرو، مہینے کے شروع سے لیکر، تکبیر، حج و عمرہ اور قربانی جیسے اعمال اور ان میں باہمی تعلقات یہ ظاہر کرتے ہیں؛ کہ تم سب ایک ہی شریعت کے ماننے والے اور ایک ہی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہو، باطل کا آلہ کار بن کر انتشار اور بکھراؤ کا ذریعہ نہ بنو، چنانچہ آپ غور کیجئے! اس پورے عشرہ میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت آئی ہے، قربانی دینے والوں کو بال و ناخن کاٹنے سے روکا گیا، تکبیرات تشریق کہنے کا حکم دیا گیا، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اور قربانی کا اہم ترین عمل بھی اسی میں کیا جاتا ہے، اسی دن مسلمانوں کی دوسری بڑی اور اہم عید عید الاضحی منائی جاتی ہے، ان تمام خصوصیات کی بناء پر اس عشرہ کی اہمیت اور افضلیت دو چند ہوجاتی ہے، ان اعما ل کو قدرے تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کیجئے اور عملی زندگی میں انہیں شامل کیجئے!*
بال اور ناخن نہ کاٹنا:
*یہ اللہ تعالی کی شان بے نیازی ہے کہ وہ بندے کو کبھی ایسا بھی حکم دیتا ہے جس سے اس کی ہراگندگی اور دیوانگی کا اظہار ہو، انسان دراصل اللہ کے سب سے زیادہ قریب تبھی ہوتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ لٹا کر حکم الہی کی پابندی کرے، اس نے اگر کہا کہ جمعہ کا دن ہے تو غسل کرو! ناخن تراشو! اچھے کپڑے پہنو اور نماز ادا کرو! تو اسی میں اس کی عبدیت کا مظہر ہے، اور اگر اس نے کبھی یہ کہہ دیا کہ کوئی ناخن نہ تراشے، بال نہ کٹوائے، حجامہ نہ لگوائے تو اس کی پابندی ہی بندگی کا تقاضہ کرتی ہے؛ چنانچہ قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چاند دیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو پہلا حکم اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ اس رات سے لے کر اپنے جانور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ – – عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ– (صحیح مسلم، الأضاحي، باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو يريد التضحية أن يأخذ من شعره…:۱۹۷۷) ایک دوسری روایت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ یہ پابندی قربانی کرنے تک ہے، صحیح مسلم اور سنن ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: فَلاَ یَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّيَ — ’’وہ اپنے جانور کو ذبح کرلینے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘ (صحيح مسلم:١٣/١٣٩- سنن ابی داؤد:٢٧٩١) المستدرک على الصحيحين میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے: “ﺇﺫا ﺩﺧﻞ ﻋﺸﺮ ﺫﻱ اﻟﺤﺠﺔ ﻓﻼ ﺗﺄﺧﺬﻥ ﻣﻦ ﺷﻌﺮﻙ ﻭﻻ ﻣﻦ ﺃﻇﻔﺎﺭﻙ ﺣﺘﻰ ﺗﺬﺑﺢ ﺃﺿﺤﻴﺘﻚ” یعنی یہ ناخنوں اور بالوں کی پابندی قربانی کرلینے تک ہے – (مستدرک حاکم:٧٥١٩) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل مبارک سے بھی یہی پتہ چلتا ہے، مؤطا امام مالک میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے بعد سر کے بال کٹوائے – – “ﻓﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﺣﻴﻦ ﺫﺑﺢ اﻟﻜﺒﺶ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﻬﺪ اﻟﻌﻴﺪ ﻣﻊ اﻟﻨﺎﺱ” (موطا ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ) بعض آثار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ پابندی تمام گھر والوں پر ھے، چنانچہ حضرت نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں : “أﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻣﺮ ﺑﺎﻣﺮﺃﺓ ﺗﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﺷﻌﺮ اﺑﻨﻬﺎ ﻓﻲ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ ” عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دس دنوں میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی، تو آپ نے فرمایا: “ﻟﻮ ﺃﺧﺮﺗﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻨﺤﺮ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ” – – اگر تو اسے قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو بہتر ہوتا – (مستدرک للحاکم:٧٥٢٠) خیال رہے کہ یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کیلئے جو قربانی دینے والے ہوں، چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کیلئے یہ حکم نہیں ہے؛ تاہم بعض شارحین حدیث ان کیلئے بھی اس عمل کو بہتر قرار دیتے ہیں، اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کرلے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں کوئی خلل نہیں آتا۔* ( ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: ٣٤)
عشرہ ذی الحجہ اور کثرت ذکر:
*یوں تو ذکر واذکار اور دعا و مناجات کی خاص گھڑی نہیں؛ بلکہ یہ تو دل میں تصویر یار کی مانند ہے جب چاہا گردن جھکائی اور دیدار کرلیا، مگر بعض اوقات ایسے لمحات متعین کر دئے گئے ہیں جو برکت و سعادت سے پر ہیں، جن میں کثرت اذکار انسان کو پاکیزگی اور طہارت کے نئے معیارات عطا کرتا ہے، تزکیہ نفس اور لقائے الہی کا سوز فراہم کرتا ہے، دل میں گداز اور مزاج میں نرمی لاتا ہے، عبادت وشکر، عبدیت اور بندگی کا انوکھا معجون عطا کرتا ہے، ایک شخص جب ان دنوں یا ان لمحوں میں اپنے رب کو یاد کرے اور اس کے حضور اپنا دل نکال کر رکھ دے تو پھر قوی امکان ہے کہ وہ اپنے رب کی بارگاہ کا خوش نصیب بندہ بن جائے گا، اس کی مقبولیت معزز مخلوق کے درمیان ہوگی اور اس کا تذکرہ ان پاکیزہ روحوں کے درمیان ہوگا جو سب سے مقرب روحیں ہیں، چنانچہ عشرہ ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور کثرت اذکار کی تلقین نبی کریم ﷺ نے بھی فرمائی ہے؛ تسبیحات، تحمیدات اور تکبیرات کہنے کو باعث خیر بتایا ہے، اس بارے میں فرمان باری تعالی ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ – – “تا کہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کا مشاہد ہ کریں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں” (حج:٢٨) یہاں ” أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ” سے مراد عشرہ ذو الحجہ [ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن] ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی :١٧/١٤٥) حضور ﷺ کا ارشاد ہے: مامن ایام اعظم عند اللہ، ولا احب الیہ من العمل فیھنمن ھذہ الایام العشر، فاکثروا فیھن من التھلیل، والتکبیر، والتحمید۔ (مسند احمد:٥٢٩٤) کوئی دن بھی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیاجائے، ذی الحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔ ایک روایت میں فرمایا :فاکثروا فیھن التسبیح، والتکبیر، و التھلیل۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی: ١٠٩٦٠) کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں “والتحميد” کے الفاظ ہیں (دیکھئے: أحمد – ٢/٧٥) شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: شرحہ علی المسند رقم:٥٤٤٦) یہ جان لینا چاہیے کہ تسبیح کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جیسے سبحان اللہ کہنا، تکبیر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا ہے جیسے اللہ اکبر کہنا، وہیں تہلیل کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرنا جیسے لا الہ الا اللہ کہنا؛ جبکہ تحمید کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا جیسے الحمد للہ کہنا – – ان چاروں اعمال و کلمات کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ چار کلمات – سُبْحَانَ اللَّهِ – وَالْحَمْدُ لِلَّهِ – وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ – وَاللَّهُ أَكْبَرُ – – سب سے زیادہ محبوب ہیں : أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ (صحيح مسلم:٢١٣٧) مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن اعمال تولنے والے ترازو میں ان کلمات کے بہت زیادہ بھاری ہونے پر تعجب کیا ہے، فرمایا: یہ (چار) کلمات ترازو میں کس قدر وزنی ہیں – – مَا أَثْقَلَهُنَّ فِي الْمِيزَانِ.*(مسند احمد: ١٥٢٣٥)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © All rights reserved. | Newsphere by AF themes.